← Back to portfolio

Shahnaz Ahad -- سنا ہے کل رات مر گیا وہ

Published on

---سنا ہے کل رات مر گیا وہ

صحافت کا ایک عہد بنام احفاظ الرحمن آج سو یرے ہمیشہ کے لئے سو گیا۔

احفاظ بھائ ایک عہد تھے۔ تحریکوں اور جدوجہد سے بھرا ایک عہد۔

جب کراچی میں تمام تحاریک خالص نظریاتی اور سیاسی بنیادوں پر چلا کرتی تھیں۔ 

-کراچی—- کراچی تھا

لسانی گروہوں کا شہر نہ تھا۔

میں کہاں بھٹکنے لگی——- مجھے تو احفاظ بھائ کے بارے میں کچھ لکھنا ہے۔

یہ 1977 کے آخری مہینوں کی بات ہے۔ — یاد نہی ستمبر تھا کہ اکتوبر—- 1977 کا الیکشن سبوتاژ ہو کا تھا۔ ——— بھٹو صاحب جیل میں تھے اور ایک ملعون حاکم وقت تھا—-جس نے اپنی کرسی کی مضبوطی کے لئے سب سے پہلے اخبارات کی آکسیجن لائن کو بند کیا— پھر سو کالڈ سنسر لگایا۔ اس سے بھی دل نہ بھرا تو اخبارات اور رسائل کے ڈیکلریشن بند کرنے شروع کردئیے۔

کوچہ صحافت میں میری حثیت قطعی ایک نوارد کی تھی۔ خوش قسمتی یہ تھی کہ ہمارے ہفت روزہ کے ایڈٹرز بہت اچھے تھے۔ انھوں نے ابتدائ چند ماہ کے اندر ہمیںنہ صرف کھڑا ہونا سکھا دیا تھا۔ دوڑانے بھی لگے تھےاور باقاعدہ ریس میں بھی بھیجنے لگے تھے۔

بات ہو رہی تھی ڈیکلریشنکی منسوخی کی——-روزنامہ مساوات کی عزت آبرو سب پامال۔ ہو چکی تھی—- اس کے ایڈٹر ابراہیم جولیس صاحب اللہ کو پیارے ہو کے تھے۔ اخباری کارکن بنا تنخواہوں کے روز صبح سے شام تک بیٹھے رہتے تھے۔ صحافتی تنظیمیں صبح شام اجلاس کرتیں؛ مز ملتی بیانات دیتیں اور اگلے دن کا پروگرام مرتب کر تھیں۔

ایسے ہی ایک دن ہمارے معیار کے ایڈٹر اشرف شاد نے کہا ،آپ کل چار بجے پریس کلب پہنچیں—— کے یو جے کا جلسہ اور شو آف پاور بھی ہے۔ میں نئ نئ کے یو جے کی ممبر بنی تھی— اگلے دن کلب پہنچی— کلب گیٹ تک بھرا ہوا تھا۔ اور باہر اتنی ہی پولیس کھڑی تھی۔ — بمشکل اندر پہنچی تو گلابی رنگ کی قمیض پہنے ایک صاحب سرخ چہرے کے ساتھ دھواں دھار تقریر کر رہے تھے—— تقریر کیا تھی بس دھواں ہی دھواں تھا— سانس لینے کے لئے رک تو مجمع نے ضیاء کتا ہاۓہاۓ- غدار ہے غدار ہے،کے نعرے لگانے شروع کردئیے۔ جس کی تان ایشیا کے سرخ ہونے پر آکر ٹو ٹتی— اسٹیج پر بیٹھے برنا صاحب اپنے دیگر ساتھیوں ظفر رضوی،مغل، حبیب بوری،ولی رضوی کے ساتھ بیٹھے مسکرا رہے تھے۔ نعروں کی گونج بڑھتی تو باہر کھڑے پولیس والے اپنی ایڑیوں پر اچکناشروع کر دیتے۔

اس شام گلابی قمیض میں سرخ چہرے والے مقرر احفاظ بھائ تھے——- اس سے پہلے اُن کا صرف نام سنا تھا۔ انھوں نے میرے کے یو جے کا ممبر بننے پر اعتراض کیا تھا اور اشرف شاد سے کہا تھا” لڑکیوں کو ممبر بنانے میں جلدی مت کیا کرو۔ چار دن بعد کام چھوڑ کر گھر بیٹھ جاتی ہیں”—- 

ان دنوں ہر شام پریس کلب میں جلسہ ہوتا تھا—- جینے مرنے کی قسمیں کھائ جاتی تھیں—— ضیائ حکومت کو جھولی بھر بھر کے برا بھلا کہا جاتا تھا— دل پھاڑ کے نعرے لگاؤ جاتے تھےاور ہم سب اس کار ثواب میں پیش پیش ہوتے تھے۔

— ہر سہہ پہر یوں جوق در جوق کلب آتے تھے جیسے کوئ مزہ ی فریضہ ادا کرنے جارہے ہوں۔ سچ تویہ ہے کہ اس وقت ہم سب کے اندر ایک یہ احساس کنڈلی مارے بیٹھا ہوتا تھا کہ اگر نہ گۓ تو آنے والا انقلاب کسی کونے پر رکا رہ جاۓ گا اور ضیاء کا بھوت کلب پر قبضہ کر لے گا—

—احفاظ بھائ اس وقت کے یو جے کے سکریٹری تھے— اور بہت ہی پر جوش جذبات سے لبریز چیختے چھنگاڑتےصحافی تھے —ان کے آگےاچھے اچھوںکی بولتی بند ہو جاتی تھی—اپنے اصولوں پر سودے بازی ان کی سرشت میں نہ تھی—

اسی آنے جانے کے دوران یہ بھی منکشف ہوا کہ لان کی کرسیوں پر بیٹھی دبلی پتلی گورے رنگ اور دھیمی مسکراہٹ والی مہہ ناز احفاظ بھائ کی شریک حیات ہیں—-ان دنوں مہہ ناز کے پاس دو ہی کام تھے مسکرانا اور اپنی حد درجہ شرارتی بیٹی فے فے کے پچھے بھاگنا—

مہہ ناز نہ صرف یہ کہ احفاظ بھائ کی نصف بہتر تھیں مساوات اخبار کے متاثرین میں سے بھی تھیں— تب ہی مسکرا ہٹوں کے تبادلوں کے بعد ہماری دوستی کا آغاز بھی ہو چکا تھا -اس تحریک کو جلا دسمبر 1977 کی بھوک ہڑتال سے اور گرفتاریوں سے ملی - اس کی تفصیل میں ہی جاؤ گی- ایک سال چلنے والی اس تحریک کا اختتام صحافی تنظیموں کی تقسیم پر ہوا - کہ مار آستینوں کی کمی تو کبھی نہی رہی ہے——کے یو جے اور پی ایف یو جے بٹ گئ—صحافی اور صحافت ایک واضح لائن کے ادھر اور ادھر کھڑے ہو گۓ—تحریک میں حصہ لینے والے تمام صحافیوں پر برا اور کڑا وقت تھا-اس وقت کو یاد کریں تو یادوں کے سینکڑوں دئیے جھلملانےلگتے ہیں—

اس سارے وقت میں احفاظ بھائ کو نہ تو کبھی ناامید دیکھا نہ ہی جوش جزبے سے خالی—- اسی تنتنےاور جزبے کے ساتھ رہتے تھے—-شہر کے سارےصحا فحیوںپر برا وقت تھا—چلتے اخبار ہم جیسوںکو نوکری نہی دیتے تھےاور جو نوکری دیتے تھے ان کے پاس دینے کو پیسے ہی ہوتے تھےاحفاظ بھائ بھی مہناز اور فے فے کے ساتھ زندگی کی گاڑی کو چلانے کی تگ و دو میں لگے رہے—اسی دوران ان کی زندگیوں میں رمیز کی شکل میں ایک اور اضافہ ہوگیا—-تحریک کے بہت سارے ساتھی تھک ہار کے روٹی روزگار کے چکر میں ملک سے باہر چلے گۓ کچھ نے دوسرے پیشوں میں طبع آزمائ شروع کردی- احفاظ بھائ نے روزنامہ امن کا ڈیسک سنبھال لیا-

یہ ہی کرتے کرتے ایک دن وہ خاموشی سے چین چلے گۓ —وہاں آٹھ سال تک اشاعت گھر سے منسلک رہے- اشاعت گھر چین میں مختلف زبانوں کے ماہرین کا مرکز ہے— اس دوران مہناز پاکستانی سفارت خانے کے زیر اہتمام چلنے والے اسکول میں پڑھاتی رہئیے اور ایک رسالے کی ادارت کا کام بھی کیا—چین سے واپسی پر احفاظ بھائ کی شخصیت میں ایک مثبت تبدیلی ان کے چہرے پر رہنے والی مسکراہٹ تھی جملوں،کاٹ کڑواہٹ کم ہو گئ تھی—-ایک اور بڑی تبدیلی یہ تھی کہ انھوں نے جنگ گروپ کے اخبار کے میگزین کو بحیثیت ایڈٹر جوائن کر لیا-دس سال کام کرنے کے باوجود مالکان نے ان کی تنک مزاجی سے تنگ آکر ان کا ملازمتی معاہدہ نہی بڑھایا—-اس کے بعد انھوں نے کچھ وقت نوزائیدہ چینل “ہم” میں بھی گزارا—-اسی دوران انھیں ایکسپریس اخبار سے میگزین ایڈٹری کی آفر آئ جو انھوں نے بخوبی قبول کر لی— کام میں کھرے احفاظ بھائ نے اس اخبار کے میگزین میں بھی جان ڈال دی—

اس دوران ان کے قریبی احباب صحافتی تنظیموں کے ورکر برنا صاحب سب ان سے فر فرمائش کرتے کہ کہ وہ 1977-78 کی تحریک کو احاطہ تحریر میں لائین—خود ان کی بھی خواہش تھی کہ اس تحریک کو ریکارڈ میں آنا چاہئے—اپنی یادداشتوں اور پاس موجود ریکارڈ کے سہارے انھوں نے کام شروع کردیا- اسی دوران ان کے ہفت روزہ الفتح کے ساتھی وہاب صدیقی اپنی جلاوطنی ختم کر کے واپس آگۓ- ان کی آمد سے احفاظ بھائ کو نہ صرف سہارا ملا بہت ریکارڈ بھی ملا—ایک ملاقات میں انھوں نے فر مائش کی کہ میرے پاس اگر ہفت روزہ معیار کے 1977-78کے شمارے ہیں تو میں ان کو تحریک کے بارے میں شائع شدہ تمام تحریری مواد مہیا کروں-میں نے ان سے وعدہ کیا اور پورا کیا- بہت خوش ہوۓ -سچ یہ ہے کہ اس دور کو احاطہ تحریر میں لانا ان ہی کا بوتا تھا———

آج ان کے بارے میں لکھتے ہوۓ مجھے ان کے بہت سارے روپ یاد آ رہے ہیں- غصے سے بھر پور سگریٹ کا لمبا کش لگاتے ہوۓ، کسی کی بیماری دُکھی کا سن کر پریشان ہو جانے والے،اخباری مالکان سے ہمیشہ ناخوش، میری بیٹی کی بیماری اور انتقال کا سن کر آبدیدہ ہو جانے والے، جنون چڑھتا تو سامنے والے پر کر سیاں الٹ دیتے، مہناز کی بیماری میں ایک محبت کرنے والے شوہر، بچوں کے شفیق باپ،بہو کی محبت میں ڈوبے سسر،بیگماتی سیاست، اور خواتین انجمنوں سے ناراض،موجودہ صحافتی انداز پر لب بھینچ لیتے ——

احفاظ بھائ ایک بہت ہی ہی اعلی پاۓ کے مترجم بھی تھے- زبان و بیان پر ان کا عبور بہت لاجواب تھا-ہلکا جملہ-تلفظ اور گرامی کی غلطی ناقابل معافی تھی-شاعری بھی پاۓ کی کرتے تھے-لیکن ان کے مزاج کی طرح اکثر لوگوں کو ہ ہضم نہی ہوتی تھی-ان کے شعری مجموعے “نئ الف لیلی” اور “ زندہ ہے زندگی” کے نام سے چھپے ہیں-ا نھیں چینی زبان پر بھی خوب عبور حاصل تھا-چینی زبان کے افسانوں کے کئ تراجم کتابی شکل میں موجود ہیں-یہ ہی نہی انھوں نے بچوں کے لئے بھی بہت کچھ لکھا اور ترجمہ کیا ہے-ان کی کتاب “ پاکستانی صحافت کی سب سے بڑی جنگ”پاکستانی صحافت کی پوری تاریخ ہے جو ہمیشہ زندہ رہے گی-پھر کچھ یوں ہوا کہ ان کی آواز ہر وقت بھر بھرائ رہنے لگی فون پر ان کی بات بہت دقّت سے سمجھ میں آتی——-تب ہی ان کی اس جان لیوا بیماری کا انکشاف ہوا-ایک فائیٹر کی طرح انھوں نے بیماری کے مختلف مراحل سے نبرد آزمائ شروع کردی- بات کرنےکی محتاجی- پیچیدگیاں در پیچیدگیاں— لیکن اس سب کے درمیاں جب جب ملتے محبت سے سر پر ہاتھ رکھتے- دوستوں سے ملنے کے لئے جب جب بلایا کبھی انکار نہ کیا—گزرے ماہ ستمبر میں جب شمیم عالم آے اور تمام آ حباب ایک ظہر آنے پر جمع ہوۓ تو آے اور خوب جم کر بیٹھے—— ان سے آخری ملاقات ان کے گھر ہی پر شمیم کی واپسی سے قبل ہوئ تھی——-اس روز انھوں نے اتنی باتیں کیں کہ اپنے آلہ آواز کی دو بیٹیریاں ختم کر لیں—-اپنی بیماری کے طویل سالوں میں انھوں نے کبھی شکستگی کا اظہار نہ کیا—اب جو چند ماہ سے ان کے مسائل بڑھنے شروع ہو گۓ او ر بڑ تھے ہی جارہے تھے——لگتا تھا کہ کسی دن کا سورج اچھی خبر کے ساتھ طلوع نہی ہوگااور کل یہی ہوا——احفاظ بھائ آپ بلکل ناریل کی طرح تھے—— جہاں رہیں خوش رہیں—- آپ پاکستانی صحافت کا کبھی نہ جھکنے والا ستون تھے—-آپ کے بعد بہت دور دور تک کوئ آپ جیسا نہی—- مجھے یقین ہے اپنے حقوق کے لئے آپ کی جدوجہد ادھر بھی جاری رہے گی —-