احفاظ الرحمٰن ...”تخلیقی صحافی“ محمد عثمان جامعی
احفاظ الرحمٰن ...”تخلیقی صحافی“محمد عثمان جامعیایک اخبار کے سنڈے میگزین نے مجھ سے احفاظ صاحب کی شخصیت پر تاثرات لکھنے کی فرماٸش کی۔ لکھ کر پیش کر دیے۔ مگر وہاں اتنے بڑے بڑے لوگوں کے تاثرات صفحات کا حصہ تھے کہ میرے جیسے معمولی آدمی کی جگہ نہ بن پاٸی یا اس قابل نہیں سمجھا گیا۔ مجھے پتا ہوتا کہ زعماٸے صحافت اور علم علمو ادب کی عظیم ہستیاں اس صفحے کے لیے تاثرات قلم بند کر رہی ہیں تو معذرت کرلیتا اور لکھنے کی ”جسارت“ نہ کرتا۔ خیر اہنے یہ تاثرات یہاں صرف اس لیے پیش کر رہا ہوں کہ ان میں احفاظ صاحب کی شخصیت اور صحافت کے ایک إیسے پہلو کا ذکر ہے جس پر کہیں بات نہیں کی گٸی۔ ملاحظہ کیجیے
ایک ویب ساٸٹ کے لیے احفاظ صاحب پر مضمون لکھ کر بھیج چکا تو دل میں”حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا“ کی گردان شروع ہوگٸی، یہ خیال روح کو کچوکے لگاتا رہا کہ ”تم اپنے استاد اہنے محسن سے انصاف نہیں کرپاۓ“ کتنے ہی پہلو رہ گۓ، کتنے ہی گوشے سامنے ن آۓ ۔ احفاظ صاحب کی ہمہ جہت شخصیت،ان کے ساتھ میرا ایک دہاٸی سے طویل پیش وران سفر، ان کے ساۓ میں صحافت، زبان، ادب کے کنے ہی رموز سے آشناٸی، اتنا گہرا اتنا طویل تعلق اور بس یہ ڈیڑھ دوہزار لفظ.....سیمان صاحب کا شکریہ کہ انھوں نے مجھے اپنے استاد پر کچھ اور لکھنے کا موقع دیا۔ احفاظ صاحب کے ایک پہلو پر شاید نہ ان کی زندگی میں اور نہ ان کی وفات کے بعد آنے والی تحریروں میں بات کی گٸی،اور انکی شخصیت کی اہم ترین جہت ہے۔ احفاظ صاحب ایک ”تخلیقی صحافی“ تھے۔ یہ اصطلاح پہلی بار انھی کے لیے استعمال بلکہ ایجاد کی گٸی ہے اور بس انھی کے شایان شان ہے۔ ان کی کوشش ہوتی کہ کسی موضوع یا مسٸلے پر میگزین کی خصوصی اشاعت یا خصوصی صفحہ تیار کرتے ہوۓ تخلیقیت کو برۓ کار لاتے ہوۓ کوٸی ایسی تحریر شامل کی یا انفرادیت کا کوٸی اور رنگشامل کی جاۓ۔ بچوں کے اغوا اور زیادتی کے واقعات پر خصوصی صفحے کی اشاعت کا فیصلہ ہوا تو احفاظ صاحب نے روایتی اندازمیں مضامین چھاپنے کے بجاۓ اختراع کا مشکل راستہ چنا۔مجھے حکم ہوا ”آپ اور اقبال خورشید صورت حال اور واقعات کو کہانی کی صورت میں لکھیے۔“ یوں یہ کہانی اس طرح تحریر ہوٸی کہ شروع میں نے کی پھر اسے اقبال نے بڑھایا پھر ہم دونوں نے باری باری اپنے اپنے حصے کے ٹکڑے لکھ کر کہانی لکھ ڈالی جو پورے صفحے پر شایع یوٸی۔ اسی طرح عالمی اولمپکس کے موقع پر مجھے ہدایت دی”اس طرح لکھیں کہ جیسے اولمپک مقابلے پاکستان میں ہورہے ہیں“ اور پھر مجھے اس خیالی منظرنامے کے نکات سمجھاکر ایک طمانیت بخش اور تخیل کو پرواز دیتی تحریر لکھنے کی ذمے داری سونپ دی۔ سرخیوں سے مضامین کے اسلوب اور صفحات کے لے آٸوٹ تک وہ اسی تخلیقی اپچ کے طلب گار اورمتلاش رہتے۔ ان کی شاعری سے تو ہم سب واقف ہیں لیکن مجھ ہر یہ بھی منکشف ہوا کہ وہ افسانہ نگار بھی تھے۔انھوں نے مجھے بتایا تھا کہان کے تحریر کردہ افسانوں کا مسودہ کہیں گم ہوگیا تھا جس ہر ایسے دل گرفتہ ہوۓ کہ پھر کوٸی افسانہ نہیں لکھا۔ تواتر سے شاعری اور اد کی اشاعت کا سلسلہ بھی ان کے ایکسپریس کے میگزین ایڈیٹر بننے کے بعد شروع ہوا۔ وہجس طرح جم کے اور جسم وجاں کو پوری مشقت میں ڈال کر طویل مضامین لکھتے تھے اور انککی بہت سی تحریروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ناول لکھنے پر بھی قدرت رکھتے تھے، مگر صحافت اور اس سےبھی بڑھ کر صحافیوں اور آزادی صحافت کی جان گھلاتی خون جلاتی جدوجہدان کے افسانہ نویس اور ناول نگار کو سموچانگل گٸی،مگر ان چتاٸوں کی راکھ سے ایک تخلیقی صحافی نے جنم لیا جو لگے بندھے راستوں پر بے زاری سے سفر پورا کرتی صحافت کو تخلیقیت کی ست رنگی راہیں سجھا گیا۔